top of page
Search
Writer's pictureYusuf Ali Bhandarkar

Rain comes Rain - A gruesome tale of Mumbai City during Monsoon Season - A Tough for Mumbai TimeLine

ممبئی کا قصہ درد سناتے ہیں .......

It's very tough to survive as normal life during monsoon season in our beloved city of Mumbai where we born and brought up the financial hub of India's Capital city - since my [the author] childhood I'm monitoring since early childhood days till to date of 55 years - there is no change but as we are approaching towards advancement of infrastructural more and more casualty is enhancing, and the things getting bad to worse. As heavy & torrential rainfall continues in Mumbai, a video of a parked car suddenly being swallowed up by a sinkhole has taken social media by storm - yesterday which force Mumbai Multimedia Studio to write on this viral topic. The incident took place in the parking lot of a residential complex in Mumbai’s Ghatkopar area, belongs to Dr. Kiran Desai, a new brand SUV. In the video going viral, a black car was seen sinking into the ground rapidly and then quickly disappearing into a pool of muddy waters. Even as the car, which appeared to be a hatchback, was swallowed up, two other vehicles parked near it were not affected. Why?? still the misery for the Municipal Corporation of Mumbai (MCGM) OR [BMC]....


شہر کا اربوں روپوں کا بجٹ پانی میں بہہ جاتاہے

نہ جانے کیا کشش ہے بمبئی تیرے ش,.بستاں میں

کہ ہم شام اودھ، صبح بنارس چھوڑ آئے ہیں

مشہور شاعر علی سردار جعفری نے ایک عرصہ قبل عروس البلاد ممبئی ،بمبئی یا بامبے کی شان میں یہ شعر کہا تھا ،لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ چند سال میں ملک کے تجارتی دارالخلافہ یا مرکز اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر حادثات کے شہر میں تبدیل ہوجائےگا ، خصوصی طورپرموسم باراں کے چار مہینے (جون تا ستمبر) یہاں کے شہریوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا، بلکہ ممبئی جیسا اہم ترین شہر تیزی سے برساتی نالے میں تبدیل ہونے کی راہ پرگامزن نظرآئے گا۔کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ بحرعرب میں نہ سماجائے ۔

ممبئی کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے ،لیکن انگریزوں نے بحر عرب پر واقع چھ جزیروں(ٹاپوﺅں) کے درمیان خلیج (کھاڑی )کو پاٹ کر اس شہر کوبسایاتھا، لیکن منگل کوایک بار پھر مسلسل ہونے والی بارش نے یہاں کی عام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ،اس سے قبل ٹھیک 16سال پہلے 2005میں بھی 26جولائی کو ممبئی میں شام کے وقت ہونے والی موسلادھار بارش نے صرف تین گھنٹوں میں ممبئی کو ڈوبا دیا تھا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے بحرعرب میں تبدیل کرکے رکھ دیاتھا ،یہ کبھی نہیں ہوا کہ چند گھنٹوں میں 996ملی میٹر بارش ہوجائے اور شمال مشرقی شہر چیراپونجی بھی پیچھے رہ جائے جہاں ایک صدی قبل1910 میں668 ملی میٹر پانی برسا تھا۔


Image sources : Google

انتظامیہ کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تھا ،لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شام پانچ بجے تک تو ممبئی شہرڈوب گیا تھا۔ اور اس قہر سے چاہے امیر ہو یا غریب کوئی نہیں بچا۔ سمندر میں طغیانی کی وجہ سے پانی شہر کی پرانی ڈرینج لائنوں سے نکلنے کے بجائے سڑکوں پر جمع ہوگیا۔ ٹرانسپورٹ کا نظام ناکام ہوگیا، لوکل ٹرینیں، بس، موٹر گاڑیاں اور دوسرے ذرائع ٹھپ پڑ گئے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں لوگ پیدل ہی اپنی منزل کی جانب چل پڑے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ بڑی تعداد میں بہہ گئے اور متعدد اپنی کاروں میں پھنس کر دم گھٹنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔نہ ہی حکومت اور شہری انتظامیہ نے اتنی موسلادھار بارش کی پیشین گوئی کی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ممبئی کا نقشہ بدل گیا۔اس سانحہ کا ذکر کرنا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ انتظامیہ نے کوئی سبق نہیں لیا اور گزشتہ 13سال کے دوران ممبئی کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ،بلکہ حالت بد سے بتر ہوچکی ہے۔

ممبئی کی صورت حال کا جائزہ لینے اور آگے بڑھنے سے پہلے ممبئی کے جغرافیہ کے بارے میں جان لیا جائے ۔ یہ شہربحرعرب پر جنوب سے شمال کی جانب ایک پٹی کی شکل میں واقع ہے، اس کے مغرب اور مشرق میں سمندر واقع ہے۔ جنوب میں قلابہ سے شمال مغرب میں ماہم تک اور جنوب سے مشرق تک سائن کے علاقہ کو جزیرہ نماءممبئی (آئی لینڈسٹی ) کہا جاتا ہے،یہی اصل ممبئی ہے اور مذکورہ علاقے کے ترقیاتی منصوبوں پر بغیر کوتائی سے عمل کیا جاتا ہے کیونکہ قلابہ ،فورٹ ،نریمان پوائنٹ ،ملبارہل،والکیشور،ورلی وغیرہ کو امیروں کے علاقے میں تبدیل کردیا گیا ،جہاں چند سال تک کپڑا ملیں تھیں اور اب فلک بوس عمارتیں اور بزنس مراکز واقع ہیں اور مستقبل میں یہ علاقے متوسط طبقے کے شہریوں کی پہونچ سے باہر نکل جائیں گے ۔ اصل شہری علاقہ تقریباًپندرہ کلومیٹر کے درمیان ہوگا، جزیرہ نما ممبئی اور مضافاتی ممبئی کو ماہم کی کھاڑی (خلیج) تقسیم کردیتی ہے۔ اس کے بعد مضافاتی علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔دراصل ویہاراور پوائی جھیلوں سے نکلنے والی میٹھی ندی اس کھاڑی کا حصہ بن چکی ہے ۔


Image sources : Google

ممبئی کے بارے میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جزیرہ نما ممبئی کوبسانے اور سنوارنے میں انگریزوں نے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی اور اس کی مزید ترقی اور فروغ کے لیے پارسی فرقے ،مراٹھی، گجراتیوں، مسلمانوں کی میمن اور بوہرہ برادریوں نے اہم رول اداکیا ،جبکہ جنوبی ممبئی کے مراٹھی اور ماہی گیروں(کوہلیوں) نے بھی حصہ لیا ہے۔جوکہ یہاں کے اصل باشندے ہیں، ممبئی کے بارے میں امپیریئل گجیٹر آف انڈیا میں لکھا ہے کہ ”بمبئی مشرق(ایشیاء) میں سب سے زیادہ خوبصورت شہر ہے اور قدرتی مناظر کی دلکش اور تجارتی و ثقافتی اہمیت کے لحاظ سے مغرب کے کسی شہر سے بھی کم نہیں ہے، اس لئے بمبئی کو شہروں کی دلہن کہا جاتا ہے۔“

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بانی اور ماہرتعلیم سرسید احمد خان1869 میں انگلستان جانے کے لئے ممبئی تشریف لائے اوراس عظیم شہر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ”بمبئی نہایت بڑی تجارت گاہ ہے، کوئی بات بھی اس شہر میں ہندوستانی شہر کی نہیں ہے، بالکل ایک انگریزی شہر معلوم ہوتا ہے۔ تصویروں میں انگریزی شہروں اور بازاروں کے نقشے دیکھے ہیں، بالکل ہو بہو ویسے ہی ہے۔“

ویسے تو ممبئی کئی صدیوں سے شمالی اور جنوبی ہندسے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے لیے اہمیت کا حامل رہا ہے،لیکن 70کے عشرے میں ممبئی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس کے کئی اسباب ہیں ،جیسے شمالی ہند میں قحط اور سیلاب کے دوران تباہی وبربادی نے یہاں کے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے مجبور کردیا اور نصف صدی کے دوران جزیرہ نما ممبئی میں تل دھرنے جگہ نہیں بچی ،تب حکومت نے مضافاتی علاقوں میں تیزی سے تعمیراتی کاموں کا آغاز کیا ،شمال مغربی مضافات باندرہ اور سائن سے تھانے اور واشی (نیو ممبئی) جیسے علاقوں میں شہر کے مقابلے میں زیادہ آبادی ہوگئی۔ ان لوگوں کی اکثریت شمالی ریاست اتر پردیش اور بہار اور جنوبی ریاست آندھرا پردیش اور تامل ناڈو سے ہے جو روزگار کی تلاش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ان کی تیزی سے بڑھی آبادی کے سبب علاقائی پارٹیوں نے مراٹھی مانس کا مسئلہ اٹھانا شروع کردیا ،1960کی دہائی میں متحدہ مہاراشٹر(سنکت مہاراشٹر)تحریک کی وجہ سے ممبئی کو مہاراشٹر کا حصہ بنا دیا گیا تھا،اس کے بعد بھی ’مراٹھی مانس ‘اور’امچی ممبئی‘ کی مہم کے دوران آنجہانی بال ٹھاکرے نے شیوسینا کو جنم دیا ،جس نے پہلے جنوبی ہند کے باشندوںاور پھر اتر بھارتیوں اور آخر میں اقلیتی فرقے کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔اور ان کی یہ تحریک کامیابی ترین کہی جاسکتی ہے ،کیونکہ سرکاری ،نیم سرکاری اور نجی دفاتر میں مراٹھیوں کی اکثریت برسرروزگار ہے ۔


Image sources : Google

ممبئی میں مانسون کے دوران ہونے والی موسلادھار اور طوفانی بارش کے شکار یہی لوگ زیادہ بنتے ہیں۔ آبادی میں اضافہ، فلک بوس عمارتوں اور فلائی اوور وغیرہ ،مونو اور میٹروریل جیسے ترقیاتی کام ضرور انجام دیئے گئے ہیں ،لیکن ممبئی کا پرانا نقل وحمل کا نظام،وہی سو سال پرانا ڈرینج سسٹم ، وہی پینے کے پانی کی پرانی پائپ لائنیں، لوکل ٹرینوں اور بسوں کا نظام، یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ انگریزوں کی دین ہے۔ صرف ان ٹرینوں اور بسوں کی تعداد میں اضافہ کیاگیا ہے ، مگر بہتر بنانے کی کوئی ایماندارانہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔البتہ پڑوسی تھانے شہر اور تھانے وپالگھر اضلاع کے ساتھ ساتھ کھاڑی پار نئی ممبئی جیسے پچاس کلومیٹر کے دائرے میں ترقیاتی کام کرنے اورانہیں بسانے میں تاخیر کردی گئی جس کے سبب شمال مغربی مضافات میں باندرہ تا بوریولی اور ویرار تک آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ،جس کا بوجھ ممبئی پر پڑنالازمی بات ہے۔جس کے لیے اب سات آبی ذخائرکا پانی بھی کم پڑنے لگا ،اور مستقبل کا کوئی ٹھوس منصوبہ بھی نظرنہیں آرہا ہے۔



ممبئی کا جو حال ہوا ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دہلی کی مرکزی حکومت ،چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو،ممبئی کے مسائل سے چشم پوشی کرتی رہی ہیں ، ملک کے سب سے زیادہ انکم ٹیکس دینے والے اس شہر کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیاہے،دہلی میں تقریباًدودہائی قبل شروع کیے گئے میٹروریل کے کام کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا گیا،وہیں ممبئی میں ایک عرصہ بعد میٹروریل کو ہری جھنڈی دکھائی گئی جبکہ یہاں کی آبادی اور محل وقوع کے سبب پہلے یہ ممبئی کا حق تھا۔

دراصل ممبئی کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو اس بات کاعلم ہوگا کہ جزیرہ نماء،جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ جوجنوبی ممبئی میں قلابہ تاماہم اورسائن واقع ہے ،مانسون کی طوفانی بارش میں مضافات کے مقابلہ میں زیادہ متاثر نہیں ہوتا ہے کیونکہ یہاں انگریزوں کے زمانے کی ڈرینج لائن واقع ہے،لیکن مضافاتی علاقے بُری طرح سے متاثر ہوتے ہیں اور سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔اس کا سبب بلڈروں،سرکاری افسران، میونسپل انتظامیہ اور دیگر سرکاری محکموں کی ملی بھگت کے سبب فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے لیے روزمرہ کی ضرورت کے سلسلے میں چشم پوشی کرتے ہوئے منظوری دے دی جاتی ہے ،کئی سال سے مضافاتی علاقوںمیں پانی اور بجلی کی فراہمی کا مسئلہ بھی سراٹھا رہا ہے ،لیکن انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے ۔ایک دوسرا مسئلہ جو شہر کو درپیش ہے ،وہ کئی ایجنسیوں کا شہر کی سڑکوں پر کام کرنا ہے ،جیسے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ساتھ ساتھ ممبئی میٹروپولیٹن ریجنل اتھاریٹی (ایم ایم آرڈی اے )،مہاراشٹر تعمیراتی اتھاریٹی(مہاڈا)،بجلی سپلائی کمپنی (بیسٹ)اورمیٹرواور مونوریل کی کمپنیاں سرگرم ہیں جبکہ ان میں مہانگر گیس کمپنی ،محکمہ ریلوے اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں ۔ان تمام ایجنسیوں کے درمیان آپسی تال میل نہیں ہے اور جب جس کی مرضی ہوتی ہے ،سڑکو ں اور فٹ پاتھوں کی کھدائی کردی جاتی ہے اورہفتوں انہیں بھرا نہیں جاتا ہے۔حالانکہ 2006کے بعد اعلیٰ سطح پر یہ طے کیا گیا تھا کہ ان تمام ایجنسیوں کے درمیان تال میل رہیگا ،لیکن وقت رہتے اسے بھلادیا جاتا ہے اور ایسی بحرانی صورتحال میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی ہے ۔مستقبل میں مزید حالات بتر ہوسکتے ہیں۔

پھر بھی یہ عجیب اتفاق ہے اور ممبئی شہر کی خاصیت ہے کہ یہ جلد ہی بحران سے ابھر آتا ہے، تب ہی مضمون کے آغاز میں تحریرکیا گیا مشہور شاعر علی سردار جعفری کا شعر ممبئی پر صادق آتا ہے۔ یوسف بھنڈرکار 7977231537 www.multimediastudio.net


#yusufbhandarkar Mumbai 400008 7977231537

29 views0 comments

Comments


bottom of page